ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لیے کیا کرنا چاہیے
16 - December - 2023 :تازہ کاری کا وقت

ڈینگی وائرس احتیاط اور علاج
ڈینگی بخار ایک وائرل بیماری ہے۔ (Aedes aegypti ) یہ وائرس ایک مخصوص مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ اس وائرس کی 4 مختلف قسمیں ہیں جنہیں
(DENV 1, DENV 2, DENV 3, DENV 4)
کہا جاتا ہے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)اس کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں پاکستان میں 25 ہزار 923 لوگ ڈینگی کا شکار ہوئے جن میں سے 62 موت کے منہ میں چلے گئے۔ ڈینگی بخار تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے، ڈینگی وائرس وائرل ہوتا ہے تو ملک بھر کے اسپتال اس بیماری کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے کیا کریں اور اگر کوئی ڈینگی کا شکار ہو جائے تو متاثرہ مریض کے علاج و صحت مندی کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔
علامات
تیز بخار
آنکھوں کے پچھلے حصے میں درد
پٹھوں اور جوڑوں میں درد
متلی، الٹیاں
جسم پر نشانات
ڈینگی بخار ہوتا کیسے ہے؟
ماہرین کے مطابق ہر مچھر ڈینگی وائرس کا سبب نہیں بنتا۔ بلکہ اس کا سبب ایک خاص مادہ مچھر ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر سفید دھبے ہوتے ہیں۔ ڈینگی وائرس اس مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے ۔ڈینگی بخار اس وقت تیزی سے پھیلنا شروع ہوتا ہے جب ان مچھروں کو افزائش کے لیے سازگار ماحول ملتا ہے۔ نسبتاً معتدل درجہ حرارت یا برسات کے موسم میں صاف پانی میں ڈینگی مچھر کے لاروے پلتے ہیں ۔اس مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی بخار ہوتا ہے۔ جس سے نقاہت، الٹیاں ، تیز دھڑکن ، جسم میں درد ، سانس لینے میں دشواری ، بے ہوش ہونا اور جسم سے خون کے اخراج جیسے مسائل ہو سکتے ہیں ۔
تشخیص
طبی معائنے کے دوران علامات دیکھتے ہوئے ڈاکٹر ڈینگی بخار کی تشخیص کے لیے اینٹی جن ، انٹی باڈیز ٹیسٹ antigen test جو NS1 ، IgM، IgG اور PCR تجویز کرتے ہیں۔ جس سے کنفرم ہو جاتا ہے کہ ڈینگی بخار ہے یا نہیں ۔
بخار کے تیسرے دن سے لے کر بخار ختم ہونے کے 48 گھنٹے بعد تک روزانہ CBC اور Hematocrit test (Hct)
ٹیسٹ کیا جاتا ہے تاکہ مریض کے خون کا مسلسل جائزہ لیا جا سکے۔
علاج
ڈینگی بخار کی علامات عموماً 3 سے 6 دن میں نمودار ہوتی ہیں۔ کوئی بھی وائرس جب ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے تو فورا متحرک نہیں ہوتا بلکہ اس کا پہلا مرحلہ انکوبیشن ( incubation period )ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں وائرس خون کے ذریعے ہمارے جسم میں پھیلتا اور اپنے آپ کو مضبوط کرتا ہے۔ ڈینگی وائرس کے جسم میں پھیل جانے سے ہمارا بیماریوں کے خلاف لڑنے والا مدافعتی نظام Immune System کمزور ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ خون کا اہم جز پلیٹ لیٹس کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پلیٹ لیٹس کی تعداد جو ایک عام تندرست انسان میں ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے 4 لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ ڈینگی سے متاثر ہو کر کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ڈینگی کی شروعات تیز بخار کی صورت میں ہوتی ہیں۔ اس مرحلے میں مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈینگی کا دوسرا مرحلہ زیادہ حساس ہوتا ہے اس میں پلیٹ لیٹس کم ہونا، خون کی نالیوں میں سے رساؤ ہونے کی وجہ سے جسم میں پانی کی مقدار کم ہونا یا کسی جگہ سے خون کا بہنا ظاہر ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹرز کے لیے الارمنگ صورتحال تب ہوتی ہے جب کسی مریض کے پلیٹ لیٹس 50 ہزار سے بھی کم ہونا شروع ہو جائیں۔ ایسی صورتحال میں اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ مریض شاکنگ کیفیت کا شکار نہ ہو جائے۔ اس کیفیت میں مریض کا اسپتال میں ایڈمٹ ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ اگر خون کا اخراج ہونے لگے تو اس کے سدباب کی فورا کوشش کی جا سکے۔ اور مریض کے جسم میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کو برقرار رکھنے کے لیے اسے میگا یونٹ یا پلازمہ FFP یعنی اضافی پلیٹ لیٹس لگائے جا سکیں۔ علاج کا اہم عنصر جسم میں سیال/خون کی گردش کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ ایسی کیفیت بہت ہی کم مریضوں کی ہوتی ہے۔ وگرنہ عموماً پانچ سے 7 روز میں ڈینگی کا زور ٹوٹنے لگتا ہے اور مریض کی صحت بحال ہونے لگتی ہے۔ بحالی کی اس صورت کو تیسرا مرحلہ یا ریکوری کہتے ہیں۔ اس مرحلے میں ڈینگی سے متاثرہ شخص کو دوبارہ بخار ہو سکتا ہے۔ یا پیٹ میں درد یا نقاہت جیسی علامات نمودار ہو سکتی ہیں۔
ڈینگی بخار کے لئے کوئی مخصوص علاج موجود نہیں ہے۔ ڈینگی کا بخار عام طور پر خودبخود ٹھیک ہوتا ہے۔ مریض کی صحت جلد بحال کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ آرام کرایا جاتا ہے اور تازہ پھولوں کا جوس اور سوپ وغیرہ تجویز کیے جاتے ہیں۔ شدید ڈینگی میں مبتلا مریض کا علاج اسپتال کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ مناسب اور بروقت علاج کے ساتھ مریض کی زندگی کا، خطرے میں جانے کا چانس کم ہوتا ہے۔
ادویات میں احتیاط
عموماً ڈینگی کے مریضوں کو اپنے طور پر کوئی دوا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ ڈاکٹر مریض کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے اس میڈیسن دے رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سے مشاورت کے بغیر خود سے کوئی میڈیسن لینا مضرصحت بھی ہو سکتا ہے ۔ کیوں کہ بعض ادویات سے پلیٹ لیٹس کم ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
ڈینگی کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر
1. ڈھیلے، ہلکے رنگ کے، پوری آستینوں اور لمبی شلوار یا پتلون والے کپڑے پہنیں۔
2. جسم کے کھلے حصوں چہرے ، ہاتھوں وغیرہ پر مچھر بھگانے والے لوشن insect repellent لگا کر رکھیں۔
3. گھر کے اندر یا باہر صاف پانی کا ذخیرہ نہ کریں ۔ اگر کہیں پانی کھڑا ہے تو اس پر مٹی کا تیل اسپرے کر دیں۔
4. مچھر سورج غروب ہونے اور طلوع ہونے کے 2 گھنٹے بعد تک متحرک رہتے ہیں ۔ اس وقت میں خصوصی احتیاط کریں ۔
5. روزانہ کی بنیاد پر مچھر مار اسپرے کریں۔ گھر کی کھڑکیوں اور دروازوں پر جالی لگوائیں۔
6. متاثرہ افراد کو آئسولیشن میں رکھیں۔ کیوں کہ ڈینگی مریض کو عام مچھر کے کاٹنے سے بھی دوسرے افراد کو وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔
7. چھوٹے بچوں کو مچھر دانی Mosquito Net میں سلائیں۔
8. گھر میں موجود گملوں وغیرہ میں زیادہ دن کے لیے پانی کھڑا نہ رہنے دیں۔
9. دفاتر اور کلاس رومز میں الیکٹرک Insect Killer لگائیں ۔
ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈینگی ایک مخصوص مچھر سے پھلتا ہے ۔ ڈینگی کی روک تھام کے لیے مچھروں کو ختم کریں اور اگر مچھروں کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے تو مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اپنے آپ کو مچھروں کے کاٹنے سے بچائیں ۔
تیز بخار یا ڈینگی کی دوسری علامات ظاہر ہوں تو مریض فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرے